حرف نو
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اس راستے پہ چل نکلا ہے جس پہ بھٹو چلا تھا۔۔عمران خان نے بیک وقت بھٹو سے بھی زیادہ محاذ چھیڑ لئے ہیں اس لئے اسکا وہی انجام ہونے والا ہے جو بھٹو کا ہوا تھا۔۔
یہ بات کرنے والے شاید ایک چیز بھول گئے ہیں کہ بھٹو جس قوم کے بل بوتے پہ بات کرتا تھا وہ ان پڑھ تھی وہ وہی دیکھنے کے قابل تھی جو اسے فوج سیاستدان یا مولوی دکھاتے تھے۔۔اس کے اگے نا انکا اپنا علمی شعور تھا نا ذہنی وسعت۔۔
آج کا پاکستان بھٹو دور سے یکسر مختلف ہے سوشل میڈیا نے معلومات عامہ اور رائے عامہ کا ایک طوفان برپا کردیا ہے۔۔۔۔چند سینٹی میٹر کی یہ ڈیوائس جسےموبائل کہتے ہیں اس نے اس ملک کے نوجوانوں کو ایک ابلتا ہوا لاوا بنا دیا ہے۔۔۔جو کچھ عمران خان کہہ چکا ہے اور جتنا سچ وہ اس ملک کی عدلیہ افواج اور الیٹ کلاس کے بارے میں کہہ چکا ہے اگر یہ سوشل میڈیا کا دور نہ ہوتا تو اب تک عمران خان قبر میں سو رہا ہوتا۔۔۔۔اور یہ بات سازشی عناصر بھی جانتے ہیں تبھی تو قدم پھونک پھونک رکھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اب انکی ایک غلطی جلتی پہ تیل کا کام کرے گی اور انکی آنے والی نسلوں کو بھی اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اسی لئے وہ ہر اس فعل سے باز ہیں جس سے اس ملک میں خونی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔
سقراط نے 3ہزار سال پہلے کہا تھا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کی تربیت کرے لیڈر استاد کی طرح ہوتا ہے جو اسے غلط اور صحیح میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔۔۔اور پاکستان کی تاریخ گواہ رہے گی کہ عمران خان نے وہ قوم تیار کرلی ہے جسے اپنا حق اور ناحق کا فرق معلوم ہوگیا ہے جسے اپنا فائدہ و نقصان معلوم ہے۔۔۔۔۔پی ڈی ایم جہاں تک سوچتی ہے عمران خان اس سے آگے تک پہنچ رہا ہے پچھلے چار ماہ میں 51 جلسے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں عمران خان کا پہنچنا اور ہر پاکستانی کو سوئی ہوئی حالت سے نکالنا عمران خان کا ایسا کارنامہ ہے جسے پاکستان کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔۔اور جب جب پاکستان کے قلمکار سرزمین پاکستان کے بارے میں کچھ لکھیں گے تو وہ شوکت خانم کے اس سپوت کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔۔
بلاگر۔۔توقیرشہباز
گنجہ سندھو باٹاپور لاہور
Comments
Post a Comment