Posts

حرف نو

 کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اس راستے پہ چل نکلا ہے جس پہ بھٹو چلا تھا۔۔عمران خان نے بیک وقت بھٹو سے بھی زیادہ محاذ چھیڑ لئے ہیں اس لئے اسکا وہی انجام ہونے والا ہے جو بھٹو کا ہوا تھا۔۔ یہ بات کرنے والے شاید ایک چیز بھول گئے ہیں کہ بھٹو جس قوم کے بل بوتے پہ بات کرتا تھا وہ ان پڑھ تھی وہ وہی دیکھنے کے قابل تھی جو اسے فوج سیاستدان یا مولوی دکھاتے تھے۔۔اس کے اگے نا انکا اپنا علمی شعور تھا نا ذہنی وسعت۔۔ آج کا پاکستان بھٹو دور سے یکسر مختلف ہے سوشل میڈیا نے معلومات عامہ اور رائے عامہ کا ایک طوفان برپا کردیا ہے۔۔۔۔چند سینٹی میٹر کی یہ ڈیوائس جسےموبائل کہتے ہیں اس نے اس ملک کے نوجوانوں کو ایک ابلتا ہوا لاوا بنا دیا ہے۔۔۔جو کچھ عمران خان کہہ چکا ہے اور جتنا سچ وہ اس ملک کی عدلیہ افواج اور الیٹ کلاس کے بارے میں کہہ چکا ہے اگر یہ سوشل میڈیا کا دور نہ ہوتا تو اب تک عمران خان قبر میں سو رہا ہوتا۔۔۔۔اور یہ بات سازشی عناصر بھی جانتے ہیں تبھی تو قدم پھونک پھونک رکھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اب انکی ایک  غلطی جلتی پہ تیل کا کام کرے گی اور انکی آنے والی نسلوں کو بھی اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اسی لئ

حرفِ نو

پی ڈی ایم نے ایک نیا قانون پاس کیا ہے جس کے تحت تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز کو ہائی وے اور موٹر وے آف پاکستان کے تمام ٹول ٹیکس معاف کردئیے گئے ہیں۔۔یعنی اگر ایک عام شہری جس کے پاس آٹھ دس لاکھ کی گاڑی ہے وہ تو تمام ٹول ٹیکس دیگا مگر یہ حکومتی دلے یہ ٹیکس نہیں دیں گے۔۔۔ پاکستان کے جسم پہ گوشت تو یہ لوگ نوچ نوچ کر کھاگئے ہیں اب جو تھوڑا بہت گوشت ہڈیوں کے ساتھ لگا ہوا ہے یہ اسے بھی کرید کرید کر کھا رہے ہیں۔۔۔ ایک غریب مزدور جو تین وقت کی تو خواب ہوئی اب دو وقت کی روٹی کے جتن کرنے میں لگا ہے وہ انکی تمام عیاشیوں کے اخرجات اپنے ہزار دو ہزار کی دیہاڑی سے پورے کررہا ہے اور اس پہ یہ نیا مذاق اس قوم کے ساتھ جو اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔۔عمران خان کی ایک ایک بات حق ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی ذات کے لئے اپنے مفادات کے لئے حکومت میں آتے ہیں اپنے آپکو فائدہ پہنچانے والے قوانین بناتے ہیں اور عوام کو مہروں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔۔ بلاگر۔۔توقیر شہباز گنجہ سندھو باٹاپور لاہور